بدھ، 26 نومبر، 2014

غیرت کے نام پر قتل

سوال) کیا اسلام میں غیرت کے نام پر قتل جائز ہے؟ بیان کیا جاتا ہے کہ اگر مرد اپنی بیوی کو زنا کی حالت میں دیکھے تو وہ اپنی بیوی اور زانی کو قتل کر سکتا ہے۔ یہ بات کس حد تک درست ہے؟ کیا اس کی بنیاد پر غیرت کے نام پر قتل کی اجازت مل سکتی ہے؟

جواب) اسلام ایک آفاقی مذہب ہے جس میں عدل و انصاف کے تمام تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ کسی عام شخص کو ہرگز یہ اجازت نہیں کہ وہ خود سزائیں دینے لگے، بلکہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر کوئی شخص کسی بھی نام پر قتل عمد کا مرتکب ہوگا تو وہ اسلامی قوانین کے تحت قاتل ٹھہرے گا اور اس کو قتل کی سزا ہوگی۔ البتہ کچھ مورد میں استثنی ہے لیکن ان کے ذکر کا یہ محل نہیں۔

غیرت کے نام پر قتل کسی بھی صورت جائز نہیں، جیسا کہ ہمارے ہاں رائج ہے۔ عموما دیکھا یہ گیا ہے کہ محض تعلق کے شبہ میں قتل کر دیا جاتا ہے، اور اگر یقین بھی ہے تب بھی لڑکا اور لڑکی کو قتل کرنے کا حق کسی کے پاس نہیں ہے، چاہے وہ باپ ہو یا بھائی یا خاتون کا میاں۔ یہاں تک کہ اگر انسان زانی و زانیہ کو اپنی آنکھوں سے فعل حرام کا ارتکاب کرتے دیکھے تب بھی اس کو قتل کرنے کا اختیار نہیں ہے، جب بات اس حد تک پہنچنے کے باوجود قتل کی اجازت نہیں ہے تو کجا محض تعلقات کے شبہ پر قتل کر دیا جائے۔

البتہ فقہاء نے ایک استثنی بیان کیا ہے کہ اگر شوہر اپنی بیوی کو کسی اور کے ساتھ فعل حرام کا ارتکاب کرتے دیکھے اور اس کو یقین ہو کہ بیوی کی رضامندی شامل ہے تو وہ اس کو قتل کر سکتا ہے۔ یہ مورد بھی محض شوہر کے لئے ہے، خاتون کے والد یا بھائی یا کسی اور رشتہ دار کے لئے نہیں۔

لیکن جب ہم اس معاملے میں غور کرتے ہیں تو ہمیں اس فتوی کی کوئی اصل نظر نہیں آتی،

اوّل تو یہ کہ قرآن مجید میں یہ حکم بیان نہیں ہوا،

دوّم یہ کہ اس معاملے پر کوئی بھی صحیح السند حدیث نہیں ہے۔ جو کچھ احادیث سے بیان ہوا ہے وہ اپنے گھر میں جان بچانے کے لئے اپنے دفاع کے لئے قتل کرنے کی اجازت ہے، مثلا کسی کے گھر کوئی ڈاکو گھسے تو اس کو اپنے دفاع کا حق حاصل ہے۔ لیکن اس مسئلے کا زنا سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

سوّم یہ کہ یہ فتوی قرآن کی صریح روح سے متصادم ہے۔ اسلام میں بالخصوص قرآن میں انسان کی زندگی کی بہت قدر و قیمت ہے، کسی کی زندگی ختم کرنا آسان نہیں ہے۔ لہذا قتل جیسے فعل شنیع کی اجازت کے لئے واضح اور قطعی دلائل ہونے چاھئیں جیسے قرآن کی آیت یا متواتر حدیث۔ یہاں متواتر تو کجا کوئی صحیح السند حدیث بھی نہیں۔

چہارم یہ اس کی اجازت دینے لگیں تو چھوٹے موٹے شک کی صورت میں مرد اپنی بیوی یا کسی بھی دوسرے شخص کو قتل کرتا رہے گا اور اس کو غیرت کا نام دے گا جیسا کہ پاکستان کے دیہی علاقوں میں عام ہے۔ اس بات کو یقینی کیسے بنایا جائے گا کہ کسی مرد نے واقعی اپنی زوجہ کو حالت زنا میں قتل کیا ہے؟ یہاں تو فقط زوجہ کا کسی اور مرد کے ساتھ بیٹھے ہونے پر غیرت جوش میں آ جاتی ہے، اور معاملہ اس وقت سنگین ہو جاتا ہے جب دونوں بے قصور ہوں اور محض شک کی بنیاد پر قتل کر دیا جائے۔ اس صورتحال میں ایسا فتوی ایک کھلا اجازت نامہ یعنی "اوپن لائسنس" ہے کہ جاؤ جیسے چاہو بیوی کو قتل کرو، تم سے کوئی بازپرس نہیں ہے۔

پنجم یہ کہ جن فقہاء نے اس کی اجازت دی ہے ان کے مطابق مرد فقط اسی صورت میں زوجہ کو قتل نہیں کر سکتا جب اس کو معلوم ہو کہ اس میں اس کی زوجہ کی مرضی شامل نہیں، اس صورت میں وہ صرف مرد کو قتل کر سکتا ہے۔ اب یہ کون ثابت کرے گا کہ زوجہ کی مرضی تھی یا نہیں؟ محض اس حالت میں دیکھ کر نہ بیوی کی مرضی کا پتہ چل سکتا ہے اور نہ مرد کی۔ لہذا اس اجازت کی صورت میں شوہر دونوں کو قتل کر کے دندنا سکتا ہے، کسی کی بیگناہی معلوم نہیں ہو سکتی۔

ششم یہ کہ آیت اللہ العظمی خوئی، آیت اللہ شیخ حسینعلی منتظری اور رھبر آیت اللہ خامنہ ای جیسے فقہاء نے اس کی ہرگز اجازت نہیں دی اور مشہور قول سے اختلاف کیا ہے۔

ہفتم یہ کہ شیخ طوسی سے پہلے یہ مسئلہ کسی نے بیان نہیں کیا۔ ان کے بعد تقریبا ہر فقیہ نے انہی کی تقلید کی، اور بظاہر معلوم ہوتا ہے کہ شیخ طوسی نے یہ فتوی اہلسنّت سے لیا

ہشتم یہ کہ اس طرح کے احکامات سے اسلام کا انتہائی کریہہ چہرہ دنیا کے سامنے آ جاتا ہے، بالفاظ دیگر یہ وہن مذہب کے زمرے میں آتا ہے۔

ان باتوں کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہرگز اس طرح کے کسی عمل کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔

والسّلام علیکم ورحمۃ اللہ

خاکسار: ابو زین الہاشمی
تحریک تحفظ عقائد شیعہ


کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں