منگل، 3 مئی، 2016

کیا جہنّم کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہے؟


٭ کیا جہنّم کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہے؟ ٭
بعض روایات کا مضمون ہے کہ جہنّمیوں کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہوگی، لیکن یہ روایات معتبر نہیں اور ان کا متن قابل استدلال نہیں۔ جیسے شیخ صدوق نے من لا یحضرہ الفقیہ میں اس مضمون کی ایک روایت نقل کی ہے؛
وَ مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ ص عَلَى نِسْوَةٍ فَوَقَفَ عَلَيْهِنَّ ثُمَّ قَالَ يَا مَعَاشِرَ النِّسَاءِ مَا رَأَيْتُ نَوَاقِصَ عُقُولٍ وَ دِينٍ أَذْهَبَ بِعُقُولِ ذَوِي الْأَلْبَابِ مِنْكُنَّ إِنِّي قَدْ رَأَيْتُ أَنَّكُنَّ أَكْثَرُ أَهْلِ النَّارِ- يَوْمَ الْقِيَامَةِ فَتَقَرَّبْنَ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ مَا اسْتَطَعْتُنَّ فَقَالَتِ امْرَأَةٌ مِنْهُنَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا نُقْصَانُ دِينِنَا وَ عُقُولِنَا فَقَالَ أَمَّا نُقْصَانُ دِينِكُنَّ فَالْحَيْضُ الَّذِي يُصِيبُكُنَّ فَتَمْكُثُ إِحْدَاكُنَّ مَا شَاءَ اللَّهُ لَا تُصَلِّي وَ لَا تَصُومُ وَ أَمَّا نُقْصَانُ عُقُولِكُنَّ فَشَهَادَتُكُنَّ إِنَّمَا شَهَادَةُ الْمَرْأَةِ نِصْفُ شَهَادَةِ الرَّجُل
(من لا یحضرہ الفقیہ: ج3 حدیث ص391)
اس روایت کا خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہ(ص) کچھ خواتین کے پاس سے گزر رہے تھے تو ان کو ناقص العقل اور ناقص الایمان کہا اور فرمایا کہ میں نے جہنّمیوں کی اکثریت کو تم میں سے دیکھا ہے لہذا اللہ سے تقرّب کی جتنی ممکن ہو کوشش کرو۔ اس پر عورتوں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ(ص) ہماری عقل اور ایمان کیسے ناقص ہوئے تو آپ نے فرمایا کہ تمہارا ایمان اس لئے ناقص ہے کیونکہ ایّام حیض میں تم نماز نہیں پڑھ سکتیں اور روزہ نہیں رکھ سکتیں، اور عقل کا نقص یہ ہے کہ ایک عورت کی گواہی مرد کی آدھی گواہی کے برابر ہے۔
یہ روایت شیخ صدوق نے مرسل نقل کی ہے، اس روایت کا مضمون بھی قابل مناقشہ ہے کیونکہ ایمان کا تعلق اس چیز سے ہے جس پر انسان کا اختیار ہو، ایاّم حیض کا ہونا اللہ تعالی کے امر سے ہے، اگر ان ایام میں روزہ اور نماز سے منع کیا گيا ہے اور کوئی خاتون اللہ کے حکم کی بجا آوری میں نماز و روزہ سے دور رہے تو یہ بھی عین اطاعت ہے اور اللہ کے نزدیک پسندیدہ ہے۔ بالفاظ دیگر عبادت اللہ کے حکم کی اطاعت کا ہی نام ہے۔ پس اس چیز کو ایمان کے نقص کے طور پر نہیں لیا جا سکتا۔
محدّث نوری نے بھی ایک روایت مستدرک الوسائل میں نقل کی ہے اور فرمایا ہے کہ بعض قدیم نسخوں میں انہوں نے یہ روایت دیکھی اور احتمال ظاہر کیا ہے کہ احمد بن عبدالعزیز الجلودی کی کتاب خطب سے یہ روایت لی گئی ہوگی، جبکہ اس کی سند میں بھی بعض مجاہیل ہیں؛
وَ الَّذِي بَعَثَنِي بِالْحَقِّ نَبِيّاً وَ رَسُولًا لَقَدْ بَعَثَنِي [رَبِّيَ] الْمَقَامَ الْمَحْمُودَ فَعَرَضَنِي عَلَى جَنَّتِهِ وَ نَارِهِ فَرَأَيْتُ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ النِّسَاءَ فَقُلْتُ يَا حَبِيبِي جَبْرَئِيلُ وَ لِمَ ذَلِكَ فَقَالَ بِكُفْرِهِنَّ فَقُلْتُ يَكْفُرْنَ بِاللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ فَقَالَ لَا وَ لَكِنَّهُنَّ يَكْفُرْنَ النِّعْمَةَ فَقُلْتُ كَيْفَ ذَلِكَ يَا حَبِيبِي جَبْرَئِيلُ فَقَالَ لَوْ أَحْسَنَ إِلَيْهَا زَوْجُهَا الدَّهْرَ كُلَّهُ لَمْ يُبْدِ إِلَيْهَا سَيِّئَةً قَالَتْ مَا رَأَيْتُ مِنْهُ خَيْراً قَط
اس روایت کا مضمون یہ ہے کہ رسول اللہ(ص) نے فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس نے مجھے نبی اور رسول مبعوث کیا، اور مقام محمود پر فائز کیا۔ جب (معراج کے وقت) میں جہنم پہنچا تو جہنّم کی اکثریت عورتوں پر مشتمل تھی، میں نے جبرائیل سے وجہ پوچھی تو انہوں نے کہا کہ یہ اپنے کفر کی وجہ سے جہنم میں ہیں۔ تو میں نے پوچھا کہ کیا وہ اللہ پر کفر کریں گی؟ تو انہوں نے کہا کہ نہیں بلکہ کفران نعمت کریں گی، ان کا شوہر ان سے اچھا سلوک کرے اور کوئی برائی نہ بھی کرے تب بھی یہ کہیں گی کہ ہم نے اپنے شوہر سے کبھی اچھائی نہیں دیکھی۔ (مستدرک الوسائل: ج14 ص243)
محدّث نوری نے ہی مستدرک الوسائل میں ایک اور روایت بغیر کسی سند نقل کی ہے؛
وَ قَالَ ص يَا مَعَاشِرَ النِّسَاءِ تَصَدَّقْنَ وَ أَكْثِرْنَ الِاسْتِغْفَارَ فَإِنِّي رَأَيْتُكُنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّار
یعنی رسول(ص) نے فرمایا کہ اے عورتوں، کثرت سے صدقہ دو اور استغفار کرو کیونکہ میں نے تم میں سے اکثر کو اہل جہنّم میں سے دیکھا ہے۔ (مستدرک الوسائل: ج 14 ص310)
پس ہمیں اس سلسلے میں تین روایات ملی ہیں، پہلی روایت مرسل ہے اور اس کے متن میں بھی اشکال ہے، دوسری روایت مجہول ہے اور اس کا ماخذ و مصدر معلوم نہیں، یہی حال تیسری روایت کا بھی ہے جس کی کوئی سند نہیں ہے۔
ان روایات کے برعکس دیگر معتبر احادیث موجود ہیں جن میں درج ہے کہ جنّت کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہوگی۔ اور جب احادیث میں تعارض ہوگا تو مرجّحات کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، سند کا صحیح/ مؤثق / معتبر ہونا بھی ان مرجحات میں سے ایک ہے۔ لہذا اپنے موقف کی اثبات میں ہم دو معتبر احادیث پیش کرتے ہیں؛
1) شیخ صدوق نے فضیل سے نقل کیا ہے؛
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قُلْتُ لَهُ شَيْءٌ يَقُولُهُ النَّاسُ إِنَّ أَكْثَرَ أَهْلِ النَّارِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ النِّسَاءُ قَالَ وَ أَنَّى ذَلِكَ وَ قَدْ يَتَزَوَّجُ الرَّجُلُ فِي الْآخِرَةِ أَلْفاً مِنْ نِسَاءِ الدُّنْيَا فِي قَصْرٍ مِنْ دُرَّةٍ وَاحِدَة
امام صادق(ع) سے پوچھا گیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ قیامت کے دن اکثر اہل جہنّم عورتیں ہوں گی۔ تو آپ(ع) نے فرمایا کہ ایسا کیسے ہو سکتا ہے؟ جبکہ وہاں ایک مرد اس دنیا کی ہزار عورتوں سے نکاح کرے گا اور سچے موتیوں سے بنے محل میں رہے گا۔ (من لا یحضرہ الفقیہ: ج3 حدیث 4627)
اگر یہاں فضیل سے مراد فضیل بن عثمان اعور ہیں تو شیخ صدوق کا طریق ان تک صحیح ہے، اس طریق کو علامہ حلّی نے بھی صحیح کہا ہے۔ اگر اس سے مراد فضیل بن یسار ہیں تب بھی اس کی سند معتبر ٹھہرے گی۔
اس حدیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اہل جنّت کی باہم شادیاں کر دی جائیں گی، اور اس قدر عورتیں ہوں گی کہ مردوں کی کمی کے باعث ایک مرد سے کئی عورتیں بیاہی جائیں گی، لہذا جنّت میں عورتوں کی تعداد زیادہ ہوگی۔ اور صادق آل محمد(ص) نے عوام الناس خاص طور پر اہلسنّت میں مشہور اس فکر سے انکار کیا کہ جہنّم کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہوگی۔ بلکہ معلوم یہ ہوتا ہے کہ اس مضمون کی شیعہ روایتیں بھی راویوں کے اشتباہ کی وجہ سے شیعہ کتب میں در آئی ہیں۔
حالانکہ آئمہ(ع) اس صحیح حدیث میں واضح فرماتے ہیں کہ اہل جہنم کی اکثریت عورتوں پر مشتمل نہیں جبکہ اس ادعا کے برعکس اہل جنت کی اکثریت عورتوں پر مشتمل ہوگی۔
2) من لا یحضرہ الفقیہ میں اس سے اگلی روایت بھی اس لحاظ سے بہت خوبصورت ہے، عمار ساباطی سے منقول ہے؛
عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع قَالَ أَكْثَرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ مِنَ الْمُسْتَضْعَفِينَ النِّسَاءُ- عَلِمَ اللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ ضَعْفَهُنَّ فَرَحِمَهُن
امام صادق(ع): اہل جنت کی اکثریت مستضعف عورتوں پر مشتمل ہے، چونکہ اللہ تعالی کو (معاشرے میں) ان کی کمزوری (اور مظلومیت) کا علم ہے تو وہ عورتوں پر خاص رحم و شفقت کرے گا۔
عمار ساباطی فطحی مذہب تھے لیکن ثقہ تھے، البتہ ان کی منفردات پر عمل کرنا ہمارے نزدیک درست نہیں۔ لیکن چونکہ دیگر صحیح روایات اس مضمون کی تائید کر رہی ہیں لہذا یہ روایت قابل قبول اور قابل استدلال ہے۔ شیخ صدوق نے عمار ساباطی تک جو طریق بیان کیا ہے اس میں بھی تین نام احمد بن حسن بن علی بن فضال، عمرو بن سعید المدائنی اور مصدق بن صدقہ فطحی المذہب ہیں لیکن ثقہ ہیں۔ پس یہ روایت مؤثق ٹھہرے گی۔
اس حدیث میں خاص نکتہ پایا جاتا ہے، اللہ تعالی خواتین پر خاص شفقت کرے گا، اور یہ شفقت اس دنیا میں بھی محیط ہے، اور اہل ایمان کو خاص تلقین کی گئی ہے کہ اپنی عورتوں سے اچھا سلوک کریں اور ان پر شفقت کریں، چاہے یہ بیویاں ہوں یا مائیں ہوں یا بہنیں ہوں یا بیٹیاں ہوں۔
3) اس سے آگے ہمیں ایک اور حدیث ملتی ہے جس سے کا ذکر اس حوالے سے کافی ضروری ہے؛
وَ قَالَ الصَّادِقُ ع الْخَيْرَاتُ الْحِسَانُ مِنْ نِسَاءِ أَهْلِ الدُّنْيَا وَ هُنَّ أَجْمَلُ مِنَ الْحُورِ الْعِينِ
امام صادق(ع) قرآن کی اس آیت "فیھن خیرات حسان" کی تفسیر میں فرماتے ہیں کہ اس آیت میں خوبصورت اور خوبرو عورتوں سے مراد اس دنیا کی نیک عورتیں ہیں جو حوروں سے بھی زیادہ خوبصورت ہوں گی۔ (من لا یحضرہ الفقیہ: ج3 حدیث4631)
مندرجہ بالا سطور سے واضح ہوا کہ عام پروپیگنڈے کے برعکس اللہ تعالی خواتین پر بہت شفقت کرتا ہے اور ان کو خاص لطف و احترام کی نکاہ سے دیکھتا ہے۔ ہمارے والد محترم اکثر فرماتے ہیں کہ خواتین سے دعائین کرواؤ کیونکہ اللہ مردوں کی نسبت خواتین کی زیادہ سنتا ہے۔
اگر غور کیا جائے تو پرانے زمانوں سے لے کر اب تک عورت ہمیشہ مظلوم واقع ہوئی ہے اور مردوں کےاستحصال کا شکار رہی ہے۔ اللہ تعالی نے ہمیشہ مظلوم طبقات کی حمایت کی اور ان کے استحصال کی وجہ سے ان کی چھوٹی سی نیکی بھی اللہ کے نزدیک بہت بڑی ہے۔
اللہ تعالی ہم سب کو دین و دنیا میں بصیرت عطا فرمائے، اور دین مبین اسلام کو بہتر انداز میں سمجھنے کی توفیق عنایت فرمائے۔

خاکسار: سید جواد رضوی
ادارہ احیائے تعلیمات محمد و آل محمد(ص)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں