منگل، 3 مئی، 2016

ویلنٹائن ڈے کی شرعی حیثیت


٭ویلنٹائن ڈے کی شرعی حیثیت٭
جب بھی معاشرے میں مغربی یلغار کے تحت کوئی نئی چیز آتی ہے تو طبیعی ہے کہ اس کی مخالفت ہوگی۔ لیکن چند ہی عرصے کے بعد وہ شئے قابل قبول ہو جاتی ہے۔ مثال کے طور پر جب برصغیر میں لاؤڈ اسپیکر آيا تو علماء میں یہ بحث چھڑ گئی کہ آیا لاؤڈ اسپیکر پر اذان جائز ہے یا نہیں، بہت سے علماء نے لاؤڈ اسپیکر پر اذان کو حرام قرار دیا۔ لیکن آج دیکھیں تو مولوی حضرات کا لاؤڈ اسپیکر کے بغیر گزارہ نہیں ہوتا۔
ایک عرصے تک تصاویر یا موویز بنوانے کو حرام کہا جاتا تھا اور اس سلسلے میں حد درجہ مبالغہ آرائی کی جاتی تھی کہ یہ خدا کی تخلیق میں دخل اندازی کے برابر ہے۔ دعوت اسلامی کے الیاس قادری صاحب بھی تصاویر اور موویز کو جائز نہیں سمجھتے تھے، آج سے دس پندرہ سال پہلے ان کو کسی نے بھی تصویر میں نہیں دیکھا تھا، آج مدنی چینل پر ان کا رخ انور ہر وقت جلوہ گر رہتا ہے۔ لال مسجد کے خطیب صاحب جب ٹی وی پر آتے تھے تو ان کا ہیولا دکھایا جاتا تھا یا پیچھے سے ان کی پیٹھ دکھائی جاتی تھی۔ آج مولوی صاحب اسلام کی سربلندی کے لئے ٹی وی چینلز پر ذوق و شوق سے تشریف لاتے ہیں۔
ہمارے بزرگ بتاتے ہیں کہ بلتستان میں کافی عرصہ پہلے فٹ بال کھیلنے کو حرام سمجھا جاتا تھا، کہا جاتا تھا کہ یہ کھیل سب سے پہلے یزید کی فوج نے کھیلا جب شہدائے کربلا کے سروں کی بے احترامی کی گئی اور فٹ بال کھیلا گیا۔ لیکن اب یہ خیال شاید ہی کسی کے ذہن میں آتا ہو۔
جب مغربی ثقافتی یلغار کی وجہ سے معاشرے میں والدین کے مخصوص ایام آئے تو پھر سے اس کی مخالفت ہوئی۔ یہ مخالفت کہیں کہیں اب بھی قائم ہے، کہا جاتا ہے کہ اسلام میں والدین کے لئے ایک دن مقرر نہیں بلکہ سارا سال ان کی خدمت کرنی چاھئے۔ یہ بات ایک حد تک درست بھی ہے، لیکن دوسرے نقطۂ نگاہ سے دیکھیں تو بیشک ہمیں والدین کی عزّت اور ان سے محبت سارا سال کرنی چاھئے لیکن ایک دن سب اپنے والدین کے لئے محبت کا اظہار کریں جو ان کے لئے بے انتہاء خوشی و مسرّت کا باعث ہوگا، اور ان کی خدمات و زحمات کو خراج تحسین کا ایک انداز بھی ہو جائے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران نے اس بات کو درک کیا کہ مغربی اثرات کے سامنے پل باندھنے کا فائدہ نہیں، انہوں نے اس چیز کو ترمیمات کے ساتھ معاشرے میں رائج کیا، اس طرح سے کہ وہاں امام علی ع کی یوم ولادت کو فادر ڈے کے طور پر منایا جاتا ہے اور جناب زھرا(س) کی ولادت کو مدر ڈے کے طور پر۔ یہ ایک خوش آیند قدم ہے کہ اس طرح اسلامی ایام کا التزام بھی ہوگا اور جدید تقاضے بھی پورے ہوں گے، اور ایک مخصوص دن والدین کے ساتھ تجدید محبت ان کی زحمات کو خراج تحسین پہنچانے کے لئے مؤثر بھی ثابت ہوگا، گو کہ اسلامی احکامات کے تحت سارا سال بھی والدین کی خدمت کی جائے۔
اسی طرح جب ہمارے ہاں ویلنٹائن ڈے کی آمد ہوئی تو حسب معمول اسی طرح سے شدومد کے ساتھ اس کی مخالفت کی گئی، اور اس کو حرام کہا گیا۔ بعض پوسٹس میں اس کو یہودیوں کا دن کہا گیا اور انتہائی غیر مہذبانہ تعبیریں بھی استعمال کی گئیں۔ ہمارے لوگ گمان کرتے ہیں کہ اس طرح سختی سے کام لے کر شاید اس ثقافتی یلغار کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن ماضی کے تجربات یہ بتاتے ہیں کہ اس طرح سختی سے مقابلہ کسی نتیجے کا حامل نہیں ہوتا۔ بلاوجہ مذہبی طبقات اور معاشرے کے روشن خیال افراد میں دوری پیدا ہو جاتی ہے، جس کے دیگر منفی اثرات پیدا ہو جاتے ہیں۔
لہذا اس کو حرام یا یہودی سازش کہہ کر کنارہ کش ہونے میں فائدہ نہیں، اس مسئلے کو شریعت کے بیان کردہ اصولوں کی روشنی میں دیکھنا چاھئے۔ اسلام کے اصول ایک خاص وقت اور معاشرے کے لئے نہیں بلکہ اس کے اصول آفاقی ہیں، یعنی ہر زمانے میں اسلام کے اصولوں کو بروئے کار لاتے ہوئے ہر نئی چیز کا حکم لگایا جا سکتا ہے۔ اگر ویلنٹائن کو دیکھیں تو اس دن اظہار محبت کے نام پر ناجائز اختلاط کی تشویق بھی ہے اور ساتھ ہی عزیز و مشروع رشتوں کے درمیان اظہار محبت بھی ہے۔ اس دن میاں بیوی اور منگیتر حضرات بھی تحفے تحائف اور اظہار محبت کا اظہار کرتے دکھائی دیتے ہیں، اور کئی جگہوں پر دیگر رشتوں جیسے ماں باپ اور بہن بھائیوں کے درمیان بھی یہ سلسلہ نظر آتا ہے۔
ویلنٹائن ڈے کا تصور یہ ہے کہ ہر شخص ان رشتوں کو خراج تحسین پیش کرے جو اس کی زندگی میں اہمیت کی حامل ہیں، گو کہ اس میں غلط طور طریقے بھی اپنائے جاتے ہیں، جیسے عید ایک اسلامی تہوار ہے لیکن اس دن بہت ساری باتیں ایسی ہوتی ہیں جو غلط ہیں لیکن ان غلط کاموں سے عید کی قداست پر حرف نہیں پڑتا۔ لہذا ضرورت اس امر کی ہے اس کے جائز پہلوؤں کو دیکھا جائے اور ناجائز طریقوں کی حوصلہ شکنی کی جائے۔ ایک تجویز یہ بھی ہو سکتی ہے کہ امام علی(ع) و جناب فاطمہ زھرا(س) کی شادی والے دن اظہار محبت کے جائز پہلوؤں کو اپنایا جائے، تاکہ مولا علی(ع) و جناب زھرا(ع) کی ذوات مقدسہ سے کامیاب ازدواجی زندگي گزارنے کا درس ملے۔
چنانچہ ہم سمجھتے ہیں کہ مطلق کسی شئے کو حرام قرار دے کر کنارہ کش ہو جانا دیرپا نہیں ہے، اگر اسی وقت ہی سمجھداری سے حکم لگایا جائے تو بہت سارے مسائل کا حل مل جائے گا۔ اگر مذہب کی غیر عقلانی تشریحات ہوں اور نوجوانوں کو یہ تاثر دیا جائے کہ اسلام میں سختی ہی سختی ہے، اور محض کسی دن جائز طریقے سے بھی اظہار محبت حرام ٹھہرتا ہے تو یہ بات ان کے اذہان میں مثبت اثر نہیں چھوڑتا۔ لہذا ویلنٹائن ڈے ضرور منائیں لیکن ان رشتوں کے ساتھ جن کو اللہ نے آپ کے لئے حلال قرار دیا ہے۔
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ

خاکسار: سید جواد رضوی

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں